نام و نسب
تمیم بن اوس بن خارجہ بن سواد بن جزیمہ
بن ذراع بن عدی بن الدار ابن ہانی بن حبیب بن انمار بن لخم بن
عدی بن عمرو بن سبا۔
دار قبیلہٴ لخم کی شاخ
ہے اور لخم یعرب بن قحطان کی نسل سے ہے گویا تمیم داری
قحطانی النسل ہیں۔ (اصابہ ۱/۱۸۳، تہذیب
التہذیب، ص:۳۲۲، استیعاب
۱/۲۷۰، سیر اعلام ۴/۸۳)
کنیت
آپ کی ایک بیٹی
تھی رُقیہ جس سے آپ کی کنیت ابورقیہ ہے اسکے علاوہ
کوئی اولاد نہیں تھی۔
نسبت
ساتویں پشت پر آپ کے جد امجد کا نام
”الدار“ تھا۔ انہی کی طرف نسبت کی وجہ سے الداری
کہے جاتے ہیں۔ (اصابہ ۱/۱۸۳)
وطن اور مذہب قدیم
حضرت تمیم اصلاً ملک شام میں
فلسطین کے رہنے والے تھے اور مذہباً نصرانی تھے۔ حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل آسمانی کتابوں کی
پیشینگوئی کے مطابق جہاں اور بہت سے اہل کتاب نے بنی آخر
الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی جگہ اپنے وطن سے
منتقل ہوکر بود و باش اختیار کرلی تھی حضرت تمیم بھی اسی طرح دارِ ہجرت نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کے باشندہ ہوچکے تھے۔ مگر تجارت کی غرض سے ملک شام کا سفر ہوتا
رہتا تھا۔ (اصابہ)
قبولِ اسلام کا سبب
ابونعیم اصفہانی نے حضرت تمیم کے اسلام قبول کرنے
کا یہ واقعہ نقل کیا ہے:
․․․․ فرماتے ہیں
کہ جب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو میں
ملک شام میں تھا۔ میں کسی ضرورت سے شام سے نکلا تو رات
ہوگئی میں نے کہا آج رات اِس وادی کے بڑے جن کی پناہ لیتا
ہوں۔ یہ کہہ کر جب سونے لگا تو ایک پکارنے والے نے کہا ”اللہ کی
پناہ لو اس لئے کہ جن اللہ کے خلاف کسی کو پناہ نہیں دیتے“ میں
نے اسے اللہ کی قسم دے کر کہا کیا بات ہے؟ تو اس نے کہا کہ محمد امیین
کے رسول ، اللہ کے رسول بن کر مبعوث ہوئے ہیں ہم نے ان کے پیچھے نماز
پڑھی ہے مقام حجون میں ہم نے اسلام قبول کیا اور ان کی
اتباع کی، جنوں کی چال ختم ہوگئی، شہابِ ثاقب ان کو مارے گئے پس
تم محمد جو رب العالمین کے رسول ہیں کے پاس جاؤ اور اسلام لے آؤ“
(حضرت) تمیم فرماتے ہیں کہ صبح ہوئی تو معبد میں گیا
اورراہب سے پوچھا اور رات کی خبر دی۔ راہب نے کہا جنوں نے تم سے
سچ کہا وہ حرم سے نکلیں گے اور ہجرت کی جگہ بھی حرم ہوگی،
وہ خیرالانبیاء ہیں اس سے کوئی آگے نہیں بڑھ
سکتا۔ (البدایہ، ۲/۲۷۸)
چنانچہ۹ھء سنة الوفود میں آپ
اور بھائی نُعَیم دونوں اپنے خاندان کی ایک جماعت کے ساتھ
حاضر خدمت ہوئے اور مشرف باسلام ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
ساتھ (آخری مشہور غزوہ) تبوک میں شامل رہے۔ (اصابہ، البدایہ)
وفد داریین کی تفصیل
محمد بن سعد البصری صاحب الطبقات فرماتے
ہیں کہ داریین کا وفد دس افراد پر مشتمل تھا: (۱) تمیم،
(۲) نُعیم (دونوں حقیقی بھائی) (۳) یزید
بن قیس (چچازاد بھائی) (۴) عزیز، (۵) مُرّہ (باپ کے
چچازاد بھائی) (۶) فاکہہ بن النعمان، (۷) جبلہ بن مالک،
(۸) ابوہند، (۹) طیب، (۱۰) ہانی بن حبیب
(بقیہ پانچ بھی خاندان ہی کے افراد تھے)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طیب
کا نام بدل کر عبداللہ اور عزیز کا نام عبدالرحمن رکھا، اور ہانی بن
حبیب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شراب کی ایک
مشک اور چند گھوڑے اور ریشمی قباء جو سونے کے تاروں سے مزین تھی
ہدیہ میں پیش کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے گھوڑے اور قباء قبول فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قباء
حضرت عباس بن عبدالمطلب کو دیدی، حضرت عباس نے کہا میں اُسے کیا کروں؟ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا اس میں سے سونا نکال لو اور اپنی عورتوں کا زیور
بنالویا خرچ میں لے آؤ اور ریشم کو فروخت کرکے اس کا ثمن (قیمت)
حاصل کرلو۔ چنانچہ حضرت عباس نے وہ قباء ایک
یہودی کے ہاتھ آٹھ ہزار درہم میں فروخت کی تھی۔
حضرت تمیم نے (حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے) کہا ہم رومیوں
کے پڑوس میں رہتے ہیں ان کی دو بستیاں ہیں ایک
جیرمی دوسری بیتِ عینون۔ اگر اللہ تعالیٰ
آپ کو شام پر فتح عطا فرمائے تو یہ دونوں بستیاں مجھے بخش دیں،
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فَہُمَا
لَکَ“
پھر جب حضرت ابوبکر صدیق خلیفہ وقت
منتخب ہوئے تو وہ علاقہ ان کو دے دیا اورایک نوشتہ (دستاویز)
لکھ کر حوالہ کردیا۔ (طبقات ابن سعد)
سیر اعلام النبلاء میں اس طرح
ہے: حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت تمیم جب اسلام لائے تو
کہا یا رسول اللہ یقینا اللہ تعالیٰ آپ کو پوری
زمین پر غالب کرے گا تو مجھے بیت اللحم کی میری بستی
عنایت فرمائیے گا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
”ہی لک“ اور اس کی سند (دستاویز) لکھ
دی چنانچہ حضرت تمیم وہ دستاویز لے کر حضرت عمر کے پاس آئے حضرت عمر نے فرمایا ”انا شاہد
ذلک فامضاہ“ میں خود اس کا شاہد ہوں پھر اسے نافذ کیا یعنی وہ قریہ
ان کے حوالے کردیا۔
حضرت لیث تابعی فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمیم
سے یہ بھی کہا تھا ”لَیْسَ لَکَ اَن تَبِیعَ“ اس بستی کو فروخت نہ کرنا۔
فرماتے ہیں کہ وہ بستی آج تک حضرت تمیم کے خاندان کے قبضہ میں
ہے۔(سیر اعلام ۴/۸۴، تکملہ فتح الملہم
۶/۴۰۸)
آیتِ قرآن کریم اور واقعہ حضرت تمیم
یا ایہا الذین آمنوا شہادة بینکم
اذا حضر احدکم الموت الخ پ:۷، سورہ مائدہ آیت
۱۰۶،۱۰۷۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ یہ آیات تمیم داری
اور عدی بن بدّاء کے سلسلہ میں نازل ہوئیں اس میں کسی
کا اختلاف نہیں ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ تمیم بن اوس
داری اور عدی بن بدّاء اسلام لانے سے قبل (کہ اس وقت دونوں نصرانی
تھے) تجارت کے لئے ملک شام کا سفر کیا کرتے تھے (ابن عباس فرماتے ہیں: اور یہ دونوں مکہ بھی آیا جایا
کرتے تھے) ایک مرتبہ قبیلہ بنی سہم کا ایک نوجوان بُدَیل
بن ابی مریم (مولی عمرو بن العاص جو مسلمان تھا) مال تجارت لے
کر ان کے پاس آیا بدیل کے پاس چاندی کا ایک پیالہ
تھا (اس میں تین سو مثقال چاندی تھی) جو اس کے مال کا بڑا
حصہ اور بادشاہ کے ہاتھ فروخت کرنا چاہتا تھا۔ تینوں ملک شام کے ارادہ
سے چلے۔ بدیل مرض الموت کا شکار ہوگئے تو (مرنے سے پہلے سامان کی
فہرست لکھ کر سامان میں رکھ دی تھی اور اپنے دونوں نصرانی
ساتھیوں سے ذکر نہ کیا) ان دونوں کو وصیت کی اور حکم دیا
کہ اس کا مال گھروالوں کو پہنچادیں۔ حضرت تمیم کہتے ہیں
کہ ہم دونوں نے اسکے سامان میں سے چاندی کا پیالہ نکال لیا
اوراس کو ایک ہزار درہم میں بیچ کر اس کی قیمت آدھی
آدھی آپس میں تقسیم کرلی۔ پھر جب بدیل کے گھر
پہنچے تو باقی کل مال اس کے وارثوں کے حوالہ کردیا۔ وارثوں نے
جب اس کے مال کو دیکھا تواس میں سے ایک فہرست برآمد ہوئی،
انھوں نے فہرست کے مطابق مال کی جانچ پڑتال کی تو اس میں چاندی
کا پیالہ نہ ملا۔ وہ لوگ تمیم وعدی کے پاس گئے اور اُن سے
پوچھا کہ بدیل نے بیماری کی حالت میں اپنا مال
فروخت کیا تھا، انھوں نے کہا نہیں وارثوں نے کہا ہم کو اس کے سامان میں
ایک چاندی کا پیالہ نہیں ملتا ہے۔ انھوں نے کہا ہم
کو کچھ معلوم نہیں، جو چیز اس نے ہمارے سپرد کی تھی وہ ہم
نے تمہارے سپرد کردی۔ وارثوں نے یہ معاملہ اور یہ مقدمہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا الخ (تفسیر
قرطبی ۶/۳۴۶، معارف القرآن ادریسی
۲/۵۹۸)
حفظ کلام پاک
# بعض محدثین نے تصریح کی
ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جن صحابہ کرام نے حفظ مکمل کیا
ان میں حضرت تمیم داری بھی ہیں۔ (اتقان
۱/۹۶)
# محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ چار آدمیوں نے حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کے عہد مبارک میں قرآن پاک جمع کرلیا تھا: اُبی
بن کعب، عثمان، زید، تمیم داری (سیراعلام
۴/۸۴) جمع کرنے سے مراد غالباً لکھ کر محفوظ کرلینا
ہے۔
# حضرت قتادہ فرماتے ہیں
کہ حضرت تمیم علمائے اہل کتابین میں سے تھے۔ (تہذیب
التہذیب ۱/۳۲۲)
عبادت و ریاضت
صاحبِ حلیة الاولیاء فرماتے ہیں:
آپ اپنے قدیم مذہب میں بھی اپنے زمانہ کے بہت بڑے راہب تھے اور
اہل فلسطین میں بڑے عابد شمار ہوتے تھے۔ (بلکہ دَیر یعنی
گرجا میں زیادہ اوقات عبادت میں مشغول رہنے کی وجہ سے دَیری
بھی کہا گیا ہے۔ دائرة المعارف ۶/۲۲۳)
اور اسلام قبول کرنے کے بعد بھی بڑے ہی عبادت گذار اور شب زندہ دار
تھے۔
# محمد بن سیرین فرماتے ہیں: رات بھر نوافل میں قرآن پاک پڑھا کرتے
تھے اور یہ کہ ایک رکعت میں قرآن ختم کرتے تھے۔
# ابوقلابہ فرماتے ہیں:
تمیم داری سات رات میں قرآن پاک ختم کرتے تھے۔
# محمد بن المنکدر فرماتے ہیں: تمیم
داری ایک رات سوئے اورتہجد کیلئے نہ اٹھ سکے یہاں تک صبح
ہوگئی، تو ایک سال مکمل رات بھر نوافل میں مشغول رہے بالکل نہیں
سوئے۔ تہجد چھوٹ جانے کی پاداش میں۔
#صفوان بن سُلیم فرماتے ہیں:
حضرت تمیم عشاء کی نماز کے بعد مسجد میں نوافل میں مشغول
ہوئے جب اس آیت ہُمْ فِیْہَا کَالِحُونَ پر پہنچے تو بار بار اسے پڑھتے رہے یہاں
تک صبح کی اذان ہوگئی۔
# مسروق تابعی فرماتے ہیں:
مجھے ایک مکی شخص نے بتایا (اشارہ کرتے ہوئے) کہ یہ جگہ
تمہارے بھائی تمیم کی ہے جہاں میں نے دیکھا ہے کہ
نفل کیلئے کھڑے ہوئے اور صبح کردی۔ قرآن پاک کی ایک
آیت اَمْ حَسِبَ الذین اجْتَرحُوا السَّیِّئات
الخ
پڑھتے رکوع کرتے سجدہ کرتے اور روتے رہتے اسی طرح پوری رات کٹ گئی۔
حاصل یہ کہ آپ قرآن پاک کے بہت زیادہ
تلاوت کرنے والے تھے۔ وکان تلّاءً لکتاب اللّٰہ (اصابہ ۱/۴۸۸،
تہذیب التہذیب ۱/۳۲۳، صفة الصفوہ
،ص:۳۱۰، سیراعلام ۴/۸۳)
طبیعت و عادت شریفہ
حضرت تمیم خوش منظر اور خوش پوشاک
تھے۔ (اسدالغابہ ۲/۲۹۵)
# حضرت انس اور محمد بن سیرین
فرماتے ہیں: حضرت تمیم داری نے ایک ہزار درہم کے عوض ایک
قیمتی جوڑا خریدا تھا جس کوپہن کر رات میں تہجد پڑھتے
تھے۔
# ثابت تابعی فرماتے
ہیں: حضرت تمیم کے پاس ایک جوڑا تھا، ایک ہزار درہم میں
خریدا تھا اُسے اُس رات پہنتے تھے جس کے شب قدر ہونے کی امید
ہوتی تھی۔
بلند آواز سے تلاوت
محمد بن ابی بکر
اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمرہ نے ہماری
ملاقات کی اور ہمارے یہاں رات گذاری۔ میں رات میں
تہجد کیلئے اٹھا تو بلند آواز سے قرأت نہیں کی تو حضرت عمرہ نے کہا اے بھتیجے کس چیز نے آپ کو بلند آواز سے قرأت
کرنے سے روک دیا، ہمیں تو معاذ قاری اور تمیم داری
کی آواز ہی نیند سے بیدار کرتی ہے۔ (صفة
الصفوہ،ص: ۳۱۰)
مہمان نوازی
معاویہ بن حرمل کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا اور مسجد میں
تین دن ٹھہرا اور کچھ نہیں کھاتا تھا۔ حضرت تمیم جب نماز
سے فارغ ہوتے تو دائیں بائیں جانب ہاتھ مارتے یعنی دونوں
جانب والے آدمیوں کو اپنے ساتھ گھر لیجاتے اور کھانا کھلاتے
تھے۔ چنانچہ میں نے آپ کے پہلو میں نماز پڑھی آپ نے معمول
کے مطابق ہاتھ مارا اور میرا ہاتھ پکڑ کر لے گئے اور پیش کیا
اورمیں نے خوب کھایا۔ (دلائل النبوة ۶/۸۰)
اپنی سواری کی خدمت
شرحبیل بن مسلم خولانی کہتے ہیں کہ رَوح بن زنباع نے حضرت تمیم داری کی ملاقات کی دیکھا کہ وہ اپنے گھوڑے کیلئے
جَو صاف کررہے ہیں اور گھر والے موجود ہیں رَوح نے حضرت تمیم سے
کہا کیا اِس کام کیلئے آپ کے گھر والے کافی نہیں ہیں۔
حضرت تمیم نے فرمایا کیوں نہیں لیکن میں نے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو اپنے گھوڑے کیلئے
جَو صاف کرے پھر جانور کو چارہ دے تو اللہ تعالیٰ ہر دانہ کے بدلے اس
کے لئے ایک نیکی لکھیں گے۔ (اسد الغابہ
۱/۳۹۵، مسند احمد)
---------------------
باقیات و مآثر
تلامذہ
حضرت عبداللہ بن عمر، ابن عباس، ابوہریرہ، انس بن مالک، زرارہ بن ابی اوفی، روح بن زنباع، موسیٰ بن نُصیر اللخمی صاحب
فتح اندلس، عطاء بن یزید اللیثی، عبداللہ بن موہب، سلیم یا سلیمان بن عامر، شرحبیل بن
مسلم، قُبَیصہ بن ذُوَیب،
شہر بن حوشب، عبدالرحمن بن غنم، کثیر بن مرہ وغیرہم یہ حضرات صحابہ وتابعین تمیم داری سے روایت کرتے ہیں۔ (اصابہ
۱/۱۸۳،اسدالغابہ ۲/۲۹۵، سیر
اعلام ۴/۸۳، وفیات الاعیان
۵/۳۱۸)
مرویات کی تعداد
ابن حزم ظاہری نے ”اسماء الصحابة
والرواة وما لکل واحد من العدد“ میں حضرت تمیم کو اصحاب الثمانیہ
عشر میں شمار کیا ہے۔ ”وحدیثہ یبلغ ثمانیہ
عشر حدیثا منہا فی صحیح مسلم حدیث واحد“ یعنی
آپ سے اٹھارہ احادیث مروی ہیں۔ (سیر اعلام
۴/۸۷)
ابن حبان فرماتے ہیں: ”آپ سے اٹھارہ
حدیثیں مروی ہیں ایک صحیح مسلم میں، ایک
حدیث بخاری نے کتاب الفرائض میں
تعلیقاً ذکر کی ہے۔ اور بقیہ احادیث اصحاب سنن نے
تخریج کی ہیں۔ (تراجم الاحبار
۱/۱۹۷)
گھوڑے کا ہدیہ
تاریخ طبری میں ہے کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چند گھوڑے تھے۔ حضرت تمیم
داری نے بھی ایک گھوڑا ہدیہ کیا تھا جس کا نام
وَرْد تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گھوڑا حضرت عمر کو عنایت فرمادیا حضرت عمر نے فی سبیل
اللہ وقف کردیا، لوگوں نے اسے خوب تیز رفتار پایا۔ (تاریخ
طبری ۲/۲۱۸)
منبر کی پیشکش
حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (مبدّن) بھاری بدن ہوگئے تو
تمیم داری نے حضور صلی
اللہ علیہ وسلم سے کہا کیا میں آپ کے لئے منبر نہ بنا لاؤں جو
آپ کے جسم مبارک کواٹھائے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کیوں نہیں۔ چنانچہ حضرت تمیم نے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے لئے منبر تیار کرایا جس کے دو زینے
تھے۔ (المنہل العذب المورود للسبکی ۶/۲۳۷)
انتباہ: منبر سے متعلق کئی صحابہ کی
مختلف احادیث ہیں۔ یہاں سیرت حضرت تمیم کے تعلق سے ان کی پیشکش کو ذکر کیاہے۔
عصر کے بعد دوگانہ
حضرت عروہ بن الزبیر نے بیان کیا کہ حضرت عمر لوگوں کو رکعتین
بعد العصر سے منع کیا کرتے تھے۔ حضرت تمیم کے پاس پہنچے تو ان
کو بھی منع کیا تمیم داری نے کہا واللہ میں
تو یہ نفل نہیں چھوڑوں گا تحقیق کہ میں نے یہ نماز
اُس شخصیت کی موجودگی میں پڑھی ہے جو آپ سے بہتر تھی
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، تو حضرت عمر نے فرمایا افسوس: اے تمیم اگر تمام لوگ تم جیسے
ہوجائیں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ (کتاب الناسخ
والمنسوخ،ص:۱۵۵)
تنبیہ: یہ دوگانہ بعد العصر
مشروع نہیں ہے۔ دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کے پاس قبیلہ عبدالقیس کے کچھ لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے آئے
تھے ان کو اسلام اور اس کی تعلیمات بتانے میں آپ صلی اللہ
علیہ وسلم ان کے ساتھ مشغول رہے جس کی وجہ سے سنت بعد الظہر چھوٹ گئی
یہاں تک کہ عصر کاوقت ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
نماز عصر کے بعد اس کی قضا فرمائی۔ اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی عادت شریفہ تھی کہ جب کوئی عمل شروع
کرتے تو اس پر مداومت کرتے اس لئے یہ دو رکعت آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی خصوصیات میں سے ہے یہی وجہ ہے کہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اس سے منع فرماتے تھے۔ پس حضرت تمیم کا عمل فرط محبت کا نتیجہ ہے اور حضرت عمر کا منع کرنا شرع کے مطابق اور ارشادِ رسول کے موافق تھا۔
(ابوداؤد شریف، فیض القدیر ۵/۲۸۶)
تراویح میں امامت
صاحب السنن سعید بن منصور نے عروہ بن الزبیر کے طریق سے
نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے لوگوں کو اُبی
بن کعب پر جمع فرمایا پس حضرت اُبی مردوں کو تراویح کی
نماز پڑھاتے تھے اور تمیم داری عورتوں کو تراویح
کی نماز پڑھاتے تھے۔ محمد بن نصر مروزی نے اپنی کتاب ”قیام
اللیل“ میں اسی طریق سے سلیمان ابن ابی حثمہ
کا نام بجائے تمیم داری کے ذکر کیا ہے۔ ولعل ذلک کان فی
وقتین․ یعنی دونوں دو الگ الگ وقت میں پڑھاتے ہوں یہ
ممکن ہے۔ (فتح الباری ۴/۷۸۲ کتاب صلاة التراویح)
مسجد نبوی میں روشنی
حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی میں سب سے پہلے حضرت
تمیم داری نے چراغ روشن کیا۔
(اصابہ) اول من اسرج فی المساجد تمیم داری (شرح ابن ماجہ
۴/۱۲۸۶)
کتاب الصحابة للمدینی میں
ابن قتیبہ کے حوالہ سے یہ تفصیل درج ہے: ”ابوہند کہتے ہیں
کہ تمیم داری اپنے ساتھ ملک شام سے روغن زیتون اور قندیل
اور رسی (یا زنجیر) لے کر چلے جب مدینہ پہنچے تو اتفاق سے
شب جمعہ تھی تمیم داری نے اپنے غلام
ابوالبراد کو حکم دیا وہ اٹھا رسی باندھی اور قندیل لٹکائی
اس میں پانی اور زیتون کا تیل ڈالا پھر بتی لگائی
پھر ابوالبراد سے کہا اسے سلگاؤ چنانچہ اس نے سلگایا۔ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا یہ روشنی کس نے کیا؟
صحابہ نے کہا تمیم نے یا رسول اللہ اس پر حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا (دعا دی) نَوَّرْتَ
الاسلامَ نَوّرک علیک فی الدنیا والآخرة اما انہ لو کانت لی
ابنة لَزوّجْتُکَہا“ یعنی تم نے اسلام کو روشن کردیا اللہ تعالیٰ
دارین میں تمہیں نور عطا کرے۔ سنو اگر میرے پاس کوئی
بیٹی ہوتی تو ضرور تمہارا اس سے نکاح کرادیتا۔
حضرت تمیم کا نکاح
نوفل بن حارث بن عبدالمطلب (حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی) نے کہا یا رسول اللہ
میری ایک بیٹی ہے ام المغیرہ (بیوہ تھیں)
آپ جو چاہیں کرلیجئے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
ان کا اس سے نکاح کرادیا اس شرط پر کہ مدینہ میں قیام کریں۔
(شرح ابن ماجہ ۴/۲۸۷)
چنانچہ مدینہ ہی میں مقیم
رہے یہاں تک کہ حضرت عثمان غنی کی شہادت کے
بعد ملک شام منتقل ہوگئے۔ (سیراعلام ۴/۸۳)
خطبہٴ جمعہ سے قبل وعظ
اَوَّلُ مَن قَصَّ تَمِیمُ الدَّارِی
اِسْتَاذَنَ عمرُ فاَذِنَ فقص قائماً (صفة الصفوة،ص:۳۱۰)
اس کی تفصیل یہ ہے: حمید
بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ تمیم داری نے حضرت عمر سے کئی سال تک وعظ کہنے کی اجازت طلب کرتے رہے اور
حضرت عمر انکار۔ جب حضرت تمیم کا اصرار بڑھ گیا تو فرمایا
ما تقول؟ قال اقرأ علیہم القرآن وأمرہم بالخیر
وانہاہم عن الشر قال عمر ذلک الربح، ثم قال عظْ قبل ان اخرج للجمعة ․ تم کیاکہوگے؟ حضرت تمیم نے
کہا ان کے سامنے قرآن پاک پڑھوں گا بھلائی کا حکم دوں گا اور برائی سے
منع کروں گا حضرت عمر نے کہا یہ تو نفع کی بات ہے، پھر فرمایا جمعہ کیلئے
میرے نکلنے سے پہلے نصیحت کرو۔ چنانچہ خطبہ جمعہ سے قبل وعظ و
نصیحت کرتے رہے پھر حضرت عثمان جب خلیفہ
ہوئے توان سے مزید دوسرے دن وعظ کہنے کی اجازت طلب کی۔
حضرت عثمان نے جمعہ کے علاوہ ایک اور دن کا اضافہ کیا۔ (سیراعلام
۴/۸۶)
حضرت فقیہ الامت مفتی محمود
حسن گنگوہی کے الفاظ میں ”حضرت تمیم داری ہر جمعہ کو خطبہ شروع ہونے سے پہلے احادیث سنایا کرتے
تھے۔ (حقیقت تبلیغ،ص: ۴۵)
فائدہ: معلوم ہوا کہ جمعہ کے دن خطبہ سے
پہلے پند ونصیحت کا سلسلہ حضرت عمر کے زمانہ مبارک سے
جاری ہے یہ رواج بدعت نہیں ہے۔
فائدہ: نیز حاضرین کو نصیحت
کرنے کیلئے وعظ کہنے کو خطبہ جمعہ سے الگ رکھا گیا تاکہ خطبہ جوکہ
واجب ہے اس کی شان اپنے مسنون طریقے و انداز کے مطابق ممتاز اور نمایاں
رہے خطبہ اور وعظ میں خلط نہ ہو۔
پس جو لوگ خطبہٴ جمعہ ہی میں
علاقائی زبان میں وعظ و تقریر کرنے کو جائز سمجھتے ہیں وہ
خطبہ کی امتیازی شان کو مسخ اور سنت متوارثہ کے خلاف کررہے ہیں۔
کرامت
امام بغوی نے نقل کیا
ہے کہ معاویہ بن حرمل حضرت عمر کے پاس آئے اور کہا
اے امیرالمومنین میں توبہ کرتاہوں قبل اس کے کہ آپ مجھ پر قابو
پائیں (یعنی قتل کردیں) حضرت عمر نے کہا تو کون ہے؟
میں نے کہا معاویہ بن حرمل مسیلمہ کذاب کا داماد۔ حضرت
عمر نے کہا اِذہب فانزل علی خیر اہل المدینة جاؤ اور اہل مدینہ میں سب سے
بہتر کے یہاں اترو۔ کہتے ہیں میں حضرت تمیم داری
کا مہمان بنا ․․․․ ایک دن کا واقعہ ہے کہ حرّہ میں
ایک بڑی آگ نکلی حضرت عمر حضرت تمیم کے
پاس آئے اور کہا اے تمیم چلو اس آگ کو دفع کرو جہاں سے نکلی ہے وہاں پہنچادو۔
حضرت تمیم نے کہا من انا، ما انا․ میں کون، میری کیا
حیثیت ہے۔ حضرت عمر اصرار کرتے رہے یہاں
تک کہ ان کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے اور آگ کی طرف چلے۔ تمیم داری آگ کو اپنے دونوں ہاتھوں سے ہانکنے لگے حتی کہ جس گھاٹی
سے نکلی تھی وہاں داخل کردیا اور خود بھی اس کے پیچھے
پیچھے داخل ہوئے پھر نکل آئے آگ نے ان کا کوئی نقصان نہیں کیا۔
حضرت عمر نے اس موقع پر تین مرتبہ فرمایا: لَیْسَ
مَنْ رَایٰ کَمَنْ لَمْ یَرَ یعنی واقعہ کا مشاہدہ کرنے
والا نہ دیکھنے والے کے برابر نہیں ہوسکتا۔ (دلائل النبوة
۶/۸۰، البدایہ ۵/۱۱۷، سیر اعلام
۴/۸۶، اصابہ ۴/۴۹۷)
اس واقعہ میں حضرت عمر کی جانب سے حضرت تمیم کی تعظیم
کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ (اسدالغابہ
۱/۱۸۴)
بحری سفر اور قصہٴ دجال
حضرت فاطمہ بنت قیس بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی کو سنا وہ اعلان کررہا تھا الصلاةُ
جامعةٌ میں نماز کے لئے نکلی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے ساتھ (مردوں کے پیچھے عورتوں کی صف اول میں) (ظہرکی)
نماز ادا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوکر منبر پر بیٹھے
(جبکہ اس دن سے پہلے سوائے جمعہ کے منبر پر نہیں چڑھتے تھے) آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر اس وقت مسکراہٹ تھی آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا ہر شخص اپنی اپنی جگہ بیٹھا
رہے، اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانتے ہو میں
نے تم کو کیوں جمع کیاہے انھوں نے عرض کیا ”اللہ و رسولہ اعلم“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخدا میں نے تم کو نہ تو
مال وغیرہ کی تقسیم کیلئے جمع کیا ہے نہ کسی
جہاد کی تیاری کے لئے بس صرف اس بات کے لئے جمع کیا ہے کہ
تمیم داری پہلے نصرانی تھا وہ آیا اور مسلمان ہوگیا
اور مجھ سے ایک قصہ بیان کرتا ہے (میں اس سے خوش ہوا میں
چاہتا ہوں کہ تم سے بیان کروں) جس سے تم کو میرے اس بیان کی
تصدیق ہوجائے گی جو میں نے کبھی دجال کے متعلق تمہارے
سامنے ذکر کیا تھا ۔ وہ کہتا ہے کہ ایک بڑی کشتی میں
سوار ہوا جس پر سمندروں میں سفر کیاجاتا ہے ان کے ساتھ قبیلہ
لخم اور جذام کے تیس آدمی اور تھے سمندر کا طوفان ایک ماہ تک
انکا تماشا کرتا رہا، آخر مغربی جانب ان کو ایک جزیرہ نظر آیا
جس کو دیکھ کر وہ بہت مسرور ہوئے اور چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ
کر اس جزیرہ پر اتر گئے سامنے سے ان کو جانور کی شکل کی ایک
چیز نظر پڑی جس کے سارے جسم پر بال ہی بال تھے کہ ان میں
اس کے اعضائے مستورہ تک کچھ نظر نہ آتے تھے۔ لوگوں نے اس سے کہا کمبخت تو کیا
بلا ہے؟ وہ بولی میں دجال کی جاسوس ہوں چلو اس گرجے میں
وہاں ایک شخص ہے جو تمہاری خبروں کا مشتاق ہے، یہ کہتے ہیں
کہ جب اس نے ایک آدمی کا ذکر کیا تو اب ہم کو ڈر لگا کہ کہیں
وہ کوئی جن نہ ہو۔ ہم لپک کر گرجے میں پہنچے تو ہم نے ایک
بڑا قوی ہیکل شخص دیکھا کہ اس سے قبل ہم نے ویسا کوئی
شخص نہیں دیکھا تھا اس کے ہاتھ گردن سے ملاکر اور اس کے پیر
گھٹنوں سے لے کر ٹخنوں تک لوہے کی زنجیروں سے نہایت مضبوطی
سے جکڑے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا تیرا ناس ہو تو کون ہے؟ وہ بولا تم کو میرا
پتہ کچھ نہ کچھ لگ ہی گیا اب تم بتاؤ تم کون لوگ ہو؟ انھوں نے کہا ہم
عرب کے باشندے ہیں ہم ایک بڑی کشتی میں سفر کررہے
تھے سمندر میں طوفان آیا اور ایک ماہ تک رہا۔ اس کے بعد
ہم اس جزیرہ میں آئے تو یہاں ہمیں ایک جانور نظر
پڑا جس کے تمام جسم پر بال ہی بال تھے اس نے کہا میں (جساسہ) جاسوس
ہوں چلو اس شخص کی طرف جو اس گرجے میں ہے اسلئے ہم جلدی جلدی
تیرے پاس آگئے، اس نے کہا مجھے یہ بتاؤ کہ بیسان (شام میں
ایک بستی کا نام ہے) کی کھجوروں میں پھل آتا ہے یا
نہیں ہم نے کہا ہاں آتا ہے۔ اس نے کہا وہ وقت قریب ہے جب اس میں
پھل نہ آئے۔ پھر اس نے پوچھا اچھا بُحیرئہ طبریہ کے متعلق بتاؤ
اس میں پانی ہے یا نہیں؟ ہم نے کہا بہت ہے اس نے کہا وہ
زمانہ قریب ہے جبکہ اس میں پانی نہ رہے گا پھر اس نے پوچھا
زُغَر (شام میں ایک بستی کا نام ہے) کے چشمہ کے متعلق بتاؤ اس میں
پانی ہے یا نہیں اور اُس بستی والے اپنے کھیتوں کو
اس کا پانی دیتے ہیں یا نہیں؟ ہم نے کہا اس میں
بھی پانی بہت ہے اور بستی والے اسی کے پانی سے اپنے
کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں۔ پھر اس نے کہا اچھا نبی
الامیین کاکچھ حال سناؤ ہم نے کہا وہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ
تشریف لے آئے ہیں۔ اس نے پوچھا کیا عرب کے لوگوں نے ان کے
ساتھ جنگ کی ہے؟ ہم نے کہا ہاں۔ اس نے پوچھا اچھا پھر کیا نتیجہ
رہا؟ ہم نے بتایا کہ وہ اپنے گرد و نواح پر تو غالب آچکے ہیں اور لوگ
ان کی اطاعت قبول کرچکے ہیں۔ اس نے کہا سن لو: ان کے حق میں
یہی بہتر تھا کہ ان کی اطاعت کرلیں (نبی آخر الزماں
کی بعثت کی خبر سن کر اس نے مارے خوشی کے چھلانگ لگائی)
اور اب میں تم کو اپنے متعلق بتاتا ہوں، میں مسیح دجال ہوں اور
وہ وقت قریب ہے جب مجھ کو یہاں سے باہر نکلنے کی اجازت مل جائے
گی میں باہر نکل کر تمام زمین میں گھوم جاؤں گا اور چالیس
دن کے اندر اندر کوئی بستی ایسی نہ رہ جائے گی جس میں
داخل نہ ہوں بجز مکہ اور طیبہ کے کہ ان دونوں مقامات میں میرا
داخلہ ممنوع ہے، جب ان دونوں میں سے کسی بستی میں داخل
ہونے کا ارادہ کروں گا اس وقت ایک فرشتہ ہاتھ میں ننگی تلوار
لئے سامنے آکر مجھے داخل ہونے سے روک دے گا اور ان مقامات کے جتنے راستے ہیں
ان سب پر فرشتے ہوں گے جو ان کی حفاظت کررہے ہوں گے۔
فاطمہ بنت قیس کہتی
ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لکڑی
منبر پر مار کر فرمایا کہ وہ طیبہ یہی مدینہ ہے یہ
جملہ تین بار فرمایا دیکھو کیا یہی بات میں
نے تم سے بیان نہیں کی تھی لوگوں نے کہا جی ہاں آپ
نے بیان فرمائی تھی۔ اس کے بعد فرمایا دیکھو
وہ بحر شام یا بحر یمن بلکہ مشرق کی جانب ہے اور اسی طرف
ہاتھ سے اشارہ فرمایا۔ (مسلم شریف، ترجمان السنة
۴/۴۱۱)
(جی میں آگیا تو دجال کی
مناسبت سے ذیل کی روایت ذکر کردی ہے ورنہ سیرت تمیم
سے اس کا تعلق نہیں ہے)
خروج دجال کا زمانہ
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک
دن دجال کا ذکر کیا میں نے پوچھا وہ کب نکلے گا حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: جب عمارتیں مضبوط و مستحکم بنائی
جانے لگیں، اور عورتیں (غیر شوہروں کیلئے) زینت
کرنے لگیں۔ میں نے کہا جب ایساہوجائے تو پھر کب نکلے گا
فرمایا جب تجارت کرنے والے جھوٹ بولنے لگیں اور لوگ زنا وغیرہ
گناہ کرنے لگیں۔ میں نے پوچھا جب ایساہوگا تو کب نکلے گا
ارشاد فرمایا جب میری امت نبیذ کے بجائے شراب کو حلال
سمجھنے لگے اور سود کو خرید و فروخت کے بدلے اور زنا کو نکاح کے بدلے حلال
سمجھنے لگے اس وقت دجال کا خروج ہوگا۔ (الناسخ والمنسوخ لابن الشاہین
،ص: ۲۲۷)
ریا سے حفاظت اور اعتدال کی ہدایت
یزید بن عبداللہ کہتے ہیں
کہ ایک شخص نے حضرت تمیم داری سے پوچھا ”ما صلاتک
باللیل“ رات میں آپ کی نماز کیسی ہوتی
ہے۔ تمیم بہت غصہ ہوئے اور کہا واللہ میں ایک رات چھپ کر پڑھوں
مجھے زیادہ محبوب ہے اس سے کہ پوری رات نماز پڑھوں اور لوگوں سے بیان
کروں۔ اس پر وہ شخص خفا ہوگیا اور کہا اے اصحاب رسول اللہ تعالیٰ
خوب جانتے ہیں آپ لوگوں کو اگر ہم آپ سے پوچھتے ہیں تو آپ ہم سے ناراض
ہوتے ہیں اور اگر نہ پوچھیں تو ہم سے چھپاتے ہیں پس حضرت تمیم اسکی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: بھلا بتلاؤ اگر تم
موٴمن قوی ہو اور میں کمزور تو کیوں میں ریس
کروں تم سے اس نعمت پر جو اللہ نے تمہیں دی ہے ہاں اپنے دین سے
اپنے نفس کا حق اور اپنے نفس سے اپنے دین کا حصہ لے لو تاکہ ایسی
عبادت پر قائم ہوجاؤ جس کی تمہارے اندر طاقت ہے ولکن خذ من دینک لنفسک
ومن نفسک لدینک حتی تستقیم علی عبادة تطیقہا․
(صفة الصفوہ،ص:۳۱۰)
ایک خاص خوبی (منقبت)
حضرت تمیم داری نے دجال کا قصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم سے ذکر کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منبر پر
صحابہ کرام کے سامنے بیان کیا پس حضرت تمیم کی خوبیوں میں سے شمار کیاگیا ہے
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے حدیث روایت
کرتے ہیں۔ اس لئے یہ ایک چیستان کا جواب بھی
ہے کہ وہ کون سے صحابی ہیں جن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم
حدیث نقل کرتے ہیں۔ (اصابہ ۱/۴۸۸،
تکملہ فتح الملہم ۶/۴۰۸)
آخری زندگی اور وفات
حضرت عثمان غنی کی شہادت کے بعد تمیم داری فلسطین چلے گئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم نے ”بیت عینون“ جو بیت المقدس کے پاس ہے اس کی اراضی
حضرت تمیم کو عنایت فرمائی تھی (جیسا کہ شروع میں
گذرا) وہیں سکونت پذیر ہوگئے۔ ابن حبان فرماتے ہیں
کہ آپ کاانتقال شام میں ہوا اور فلسطین کے قریب ”بیت جبرین“
میںآ پ کی قبر ہے۔ وفات ۴۰ھ میں ہوئی۔
امام ذہبی نقل کرتے ہیں کہ قبر کے کتبہ پر یہ لکھاہوا ہے مات سنة
اربعین․
(اصابہ۱/۴۸۷،
تراجم الاحبار ۱/۱۹۷، فتح الباقی علی الفیة
العراقی ۳/۶۴، اعلام ۲/۸۷، سیر
اعلام النبلاء ۴/۸۷، معجم البلدان
۶/۳۹۶، صفة الصفوہ،ص:۳۱۰ وغیرہ)
کتب میں صراحت ہے کہ حضرت تمیم داری کی وفات فلسطین
میں اپنی بستی میں ہوئی اور وہیں مدفون ہیں۔
حضرت تمیم داری کی چند مرویات کا ترجمہ
(۱) تمیم داری فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
بیشک دین خیرخواہی ہے، بیشک دین خیرخواہی
ہے صحابہ نے کہا یا رسول اللہ کس کے لئے؟ ارشاد فرمایا: اللہ کے لئے،
اوراس کی کتاب کے لئے، اور اس کے رسول کے لئے،اور مسلمانوں کے ائمہ و پیشوا
کیلئے،اور عام مسلمین کے لئے۔ (مسلم شریف، مسند احمد
۴/۱۰۲)
(۲) تمیم داری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد
نقل کرتے ہیں کہ سب سے پہلے جس چیز کا حساب بندہ سے لیاجائے گا
قیامت کے دن وہ اس کی نماز ہوگی اگر وہ مکمل نکلی تو مکمل
لکھی جائے گی ورنہ اللہ تعالیٰ کہیں گے دیکھو
بندہ کے پاس (نامہٴ اعمال میں) کچھ نوافل بھی ہیں تاکہ اس
سے فریضہ کو کامل کرو۔ پھر زکوٰة اسی طرح سے پھر اور
اعمال کا اسی طرز سے حساب کیاجائے گا۔ (مسنداحمد
۴/۱۰۲)
(۳) تمیم داری فرماتے ہیں
کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے رات میں
ایک سو آیت پڑھی اس کے لئے پوری رات عبادت کا ثواب لکھا
جائے گا۔ (مسند احمد۴/۱۰۲)
(۴) تمیم داری فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا جو شخص بازار جائے اور بلند آواز سے یہ دعا پڑھے لا
الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یُحیِی
ویمیتُ وہو حی لایموت بیدہ الخیر وہو علی
کل شیء قدیر تو اسکے لئے ایک لاکھ نیکیاں لکھی
جائیں گی۔ (اخرجہ رزین جامع الاصول
۵/۱۴۸)
(۵) تمیم داری فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے اللہ کے راستہ میں گھوڑا باندھا پھر اپنے
ہاتھ سے اسے چارہ دیتا ہے تو اس کے لئے ہر دانہ کے بدلے ایک نیکی
ہے۔ (ابن ماجہ،ص: ۲۰۵)
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7، جلد:
90 ،جمادی الثانی 1427 ہجری مطابق جولائی2006ء